تخلیق کار: روی پرکاش
جیسے کھڑکی پر ایک دن
لوٹ آتی ہے چڑیا
جیسے بیج میں لوٹتا ہے ایک دن بیج
پھولوں کو یاد کرتے ہوئے
ویسے ہی لوٹ رہا ہے سردیوں کا موسم
کہرے کے کمبل میں ٹھٹھرتا
یادوں سے لپٹا اور انہیں کی طرح دھندھلا
لوٹ رہا ہے سردیوں کا موسم ۔
کب تک رہا جا سکتا ہے
اوب اور بےچینی سے لپٹ کر
ہوا میں دھوپ کی طرح گھل کر
گھوما جا سکتا ہے شہر
ہاتھوں میں بیج لئے پھیلا جا سکتا ہے
دھرتی پر ہریالی کی طرح
جما جا سکتا ہے کائیوں کی طرح
کسی دھوپ کے ارد گرد ؟
جیسے لوٹ رہا ہے سردیوں کا موسم
ویسے ہی لوٹا جا سکتا ہے
جیسے کھڑکی پر لوٹ رہی ہے چڑیا
جیسے یادوں میں اتر رہی ہے دھوپ
جیسے خون میں گھل رہی ہے آگ
جیسے انسان کے بھیتر لوٹ رہا ہے انسان