جب وراثت میں کچھ بھی نہ ملا ہو، نہ گھر نہ وطن نہ بھاشا، نہ نام نہ پہچان تب ہمیں زندگی میں معنی کی تلاش نہیں تخلیق کرنی ہوتی ہے۔ ۱۶ ستمبر کو مشہور عربی ناول نگار اور نقاد الیاس خوری کا انتقال ہوگیا۔ جس سال ان کی پیدائش ہوئی وہ سال عربوں کی تاریخ میں نکبہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یعنی سال ۱۹۴۸ جب اسرائیلی فوجوں نے فلسطینیوں کے گھروں کو اجاڑنا شروع کیاتھا۔ لیکن الیاس کہتے ہیں کہ نکبہ تاریخ کے کسی واقعہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل طرزعمل ہے، لفظ اور معنی کے بکھراو کا، حقیقت اور خیال کے تناو کا، کیونکہ جو کچھ ہوا اور تب سے مسلسل ہورہا ہے اس کے اظہار کے لئے کوئی مناسب لفظ موجود نہیں ہے۔ جہاں ماضی اور حال بہت ہی پیچیدہ طریقہ سے ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ کیا ہم کسی ایسی یاد داشت کے سامنے کھڑے ہیں جسے نسیان گوارہ نہیں ، یا کسی ایسے حال میں جی رہے ہیں جہاں یاد داشت روز مرہ کی زندگی اور تجربہ کا ایک ضروری جز بن گیا ہے۔جب روز ہو رہی فلسطینی موتوں کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سمجھ میں ہی نہیں آتا ایا یہ حال ہے یا ماضی، تجربہ ہے یا یادداشت؟
۱۹۴۸ کے المیہ کے لئے نکبہ کی اصطلاح کا استعمال پہلی بار سوریہ کے مورخ قسطنطین زریق نے اپنی ۱۹۴۸ میں ہی چھپی کتاب ـ معنی النکبہ ـ میں کی تب سے یہ اصطلاح مشہور ہو گیا اور ایک لفظ کو اس کا معنی مل گیا، ایک حادثہ کو اس نام مل گیا جس کا ترجمہ کسی بھی زبان میں ممکن نہیں ہوا، اسی لئے یہی لفظ ہر زبان میں مستعمل ہونے لگا۔ اس لٖفظ کے ترجمہ کی دشواری دراصل اس واقعہ کی تفہیم کی دشواری کی غماز ہے۔ کیومکہ عام الفاظ اس مسلسل حادثہ کی تعبیر سے عاجز ہیں۔ یعنی جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ کہیں نہیں ہوا اور نہ ہو رہا ہے۔
۲۰۱۲ میں اپنے برلین کی ایک لیکچر میں الیاس نے نکبہ مستمرہ یعنی مسلسل نکبہ کا تصور پیش کیا۔وہ کہتے ہیں نکبہ مستمرہ کا تصور دو مرحلوں میں ظہور پذیر ہوا: پہلا جب وہ اپنا شاہکار ناول باب الشمس اور اولاد الغیتو لکھ رہے تھے اور اسی سلسلے میں ان کو فلسطینی کیمپوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔وہان انہیں شرم اور صدمہ کی پیچیدگی سمجھ میں آئی جس نے متاثرین کو گونگا بنا دیا تھا۔ جہاں کہانیوں کا ایک لا متناہی سمندر تھا، جسے لکھا نہیں گیا تھا، جسے جانتے سب تھے لیکن کوئی جانتا نہیں تھا۔ یا شاید جو جانتے تھے وہ لکھ نہیں سکتے تھے۔ وہاں انہیں احساس ہوا کہ ان کا موجودہ المیہ ۱۹۴۸ کے المیے کا تسلسل ہے ، اور اس کو اسی تناظر میں پڑھا اور سمجھا جانا چاہئے۔ اولاد الغیتو لکھتے وقت انہوں نے ان فلسطینی بستیوں کا مشاہدہ کیا جن کو ۱۹۴۸ میں اجاڑ کر اسرائیلی ریاست کی تشکیل کی گئی ہے۔ وہاں انہیں سمجھ میں آیا کہ موجودہ اسرائیلی درندگی ۱۹۴۸ کی درندگی کا ہی تسلسل ہے۔
نکبہ مستمرہ کے ظہور کا دوسرا مرحلہ ۲۰۱۱ کے ربیع عربی کے دوران پیش آیا۔ ۲۰۱۱ کے عوامی انقلاب میں سوریا کے د انشوروں کا بڑا رول رہا ہے ، لیکن ان کو عربی ثقافتی حلقوں میں وہ مقام حاصل نہیں ہوا جس کے وہ حقدار تھے، اسی پر ان کے ایک دوست علی اتاسی نے سوال کیا کہ فلسطین کو عربی شعور میں یہ ممتاز مقام کیوں حاصل ہے؟ الیاس کہتے ہیں اس سوال نے ان کو حیران کردیا ۔ایسا لگا جیسے جتنے بھی روایتی جوابات تھےسب بے معنی ہوگئے۔ جیسے یہ جواب کہ اس کی جڑیں ماضی کی عربی قومیت میں مضمر ہیں، جیسے یہ کہ یہ عربی کرامت اور عزت نفس کا سوال بن گیا ہے، اور جیسے یہ کہ یہ ہمارے دینی اور ثقافتی رابطہ کا ایک ضروری حصہ ہو گیا ہے۔ یہ سارے جوابات اپنے معنی کھوچکے تھے۔ تب انہوں نے اس سوال کا جواب پھر سے تلاش کرنا شروع کیا کہ کیوں فلسطین کو عالمی اور عربی شعور میں یہ ممتاز مقام حاصل ہے۔ تب انہیں احساس ہوا کہ فلسطینی مسئلہ کا تسلسل ہی وہ کڑی ہے جو اس کے ساری کہانیوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے اور اس کو یہ نمایاں م مقام دلاتی ہیں ۔ اس طرح تین عوامل کے تسلسل پر نکبہ مستمرہ کی اصطلاح کی بنیاد پڑی:یعنی فلسطینیوں پر ڈھائے جارہے مظالم کا تسلسل، اسرائلی درندگی کا تسلسل اور فلسطینی مزاحمت کا تسلسل، میرے احساب سے اس میں عرب حکمرانوں کی خاموشی کا تسلسل بھی شامل کرلینا چاہئے۔
الیاس خوری فلسطین کی ایک طاقتور آواز تھے۔ پیدائشی طور پرتو فلسطینی نہیں تھے، مگر وہ خود کو فلسطینی ہی مانتے تھے۔ اور اس کی کئی وجہیں تھیں۔ پہلی وجہ تو یہ تھی ، جیسا کہ انہوں نے عادل الاسطہ کے ساتھ اپنی ایک گفتگو میں بتایا ، ان کی پیدائش لبنان کے شہر بیروت کے اشرفیہ علاقہ میں ہوئی تھی جہاں انہیں کے ہم نام ایک فلسطینی ناول نگار رہتے تھے لیکن وہ مشہور نہیں ہوئے اور آج انہیں کوئی نہیں جانتا ، لہذا، اس نام کے تشابہ اور مماثلت کی بنا پر وہ خود کو فلسطینی مانتے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ستر کی دہائی میں فلسطین کے ٖفتح تحریک سے جڑے تھے، تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کا فلسطینی ادبا سے گہرا ربط رہا ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ ان کی فکری اور ادبی کاوشوں میں فلسطین ہمیشہ حاوی رہا ۔انہوں نے فلسطینی مرکز برائے تحقیق اور فلسطینی مطالعات میں کام کیا، فلسطین ان کے ناولوں غالب موضوع رہا ہے۔
الیاس خوری بیروت کے اس علمی اور ادبی حلقے سے جڑے تھے ، جس علمی حلقے میں فلسطینی شاعر محمود درویش، مارکسی دانشور فیصل دراج ،مشہور نقاد ایڈورڈ سعید، مشہور عربی شاعرادونیس، مشہور ڈراما نگار سعد اللہ ونوس جیسےباکمال لوگ شامل تھے۔ ۱۹۷۷ میں جب پاکستان میں تختہ پلٹ ہوا اور جنرل ضیا الحق صدر بن بیٹھے تب فیض احمد فیض کو بھی پاکستان چھوڑنا پڑا تھا،اس وقت وہ پاکستان سے ہجرت کر کے بیروت کے اسی علمی اور ادبی حلقے میں شامل ہوئے تھے، اور وہاں کے سہ لسانی ادبی میگزین لوٹس کی ادارت بھی کی تھی۔ بیروت اپنے انقلابی فکر کے لئے جانا جاتا ہے۔ قاہرہ اور بیروت یہ عرب دنیا کے وہ دو شہر ہیں جہاں سے عربی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا، اور جس نے ہمیشہ اپنے ادبی اورثقافتی مزاحمت کے تیور کوبر قرار رکھا۔ الیاس اسی ماحول کے پروردہ تھے۔ محمود درویش اور الیاس دونوں بیروت کا تذکرہ بڑے ہی جذباتی انداز میں کرتے ہیں۔ الیاس لکھتے ہیں کہ بیروت کا مطلب یہ ہے کہ یہ تھا ، ہے اور رہے گا عربی تہذیب کا شہر، اس کے فضا میں شامل ہے آزادی اور زندگی کی خاطر جد وجہد، یہ شہر مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا ہے، اس میں تنوع بہت ہے لیکن قدر مشترک اس کی تخلیقی مہم جوئی ہے۔
عام طور پر مانا جاتا ہے کہ ادب حقیقی زندگی کی تقلید ہوتاہے، لیکن الیاس کا خیال تھا کہ ادب زندگی کی تقلید نہیں بلکہ زندگی کی نئی ترتیب کرتاہے، اسی لئے ایک ادیب کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس کی تخلیق دنیا کو نئے انداز، مختلف اور مناسب زاویے میں تشکیل دینے کا ایک ذریعہ بنے۔ ان کے ادب کے ساتھ کچھ ہوا بھی ایسا ہی، جہاں ادب نے حقیقت کی تقلید نہیں بلکہ حقیقت نے ادب کی تقلید کی۔ 2014 کے دسمبر میں، کچھ نوجوان فلسطینیوں نے بیت المقدس کے قریب زمین پر قبضہ کر کے اسے “باب الشمس” کا نام دیا، جو خوری کے ناول کا نام ہے۔ تین دن بعد اسرائیلی فوج نے یہ گاؤں تباہ کر دیا، تو ان نوجوانوں نے ایک نیا گاؤں بسایا اور اس کا نام “یونس الاسدی” رکھا جو کہ ان کے ناول کا مرکزی کردار ہے۔
الیاس خوری زندگی میں معنی کی تلاش سے زیادہ معنی کی تخلیق پر زور دیتے ہیں ،یہی معنی تخلیقی مہم جوئی اور زندگی کے لئے سنگھرش بیروت کے ادبی حلقے کو قاہرہ سے الگ کرتی ہے، جہاں ادبا کی نمایاں خصوصیت ، خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد، معنی کی تلاش میں وجودیت کے بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہنا ہے۔ اپنے انتقال سے ٹھیک ایک مہینہ پہلے انہوں درد کا سال کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا ، اس میں وہ لکھتے ہیں:
میں ایک سال سے ہسپتال کے بستر پر پڑا ہوں۔ درد کی زندگی ایک نئے درد پر ہی جاکر رکتی ہے، جیسے انسان کی تخلیق کسی بہت ہی پیچیدہ مواد سے کی گئی ہو، ا ور درد ہی اس کی زندگی کی تشکیل کر رہی ہے۔ مجھے شکایت نہیں کرنی چاہیے، اور میں کر بھی نہیں رہا ہوں، لیکن درد کی شدت سے تو چٹان میں بھی شگاف پڑ جاتاہے اور زندگی بے معنی ہوجاتی ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں ہمیں معنی کی تلاش ہوتی ہے، لیکن درد کی زندگی میں ہمیں خود معنی کی تخلیق کرنی پڑتی ہے۔ جب میں اپنا ہفتہ وار مضمون لکھنے کے لیے اٹھتا ہوں، تو دوہرا درد میرے اندر پھٹ پڑتا ہے، جیسے میں نےازل سے تمام گناہوں کا بوجھ اٹھا ئے ہوا ہوں۔ کیا میں دماغ سے سوچ سکتا ہوں جب کہ میرا جسم درد سے پھٹ رہاہو؟ پھر بھی، میں نے جینے کی امید نہیں چھوڑی ہے ۔جس کی زندگی شروع سے فلسطینی مزاحمت سے جڑی ہو، وہ بھلا کیسے ہار مان سکتا ہے؟ غزہ اور فلسطین پر وحشیانہ حملے تقریباً ایک سال سے جاری ہیں، لیکن وہ ثابت قدم ہیں۔ زندگی سے پیارکرنا میں انہیں سےسیکھتا ہوں۔
اب الیاس خوری اس دنیا میں نہیں ہیں! سورج کا دروازہ کھلا ہے اور معنی کی تخلیق جاری ہے۔
تبریز احمد