شاعر: روی پرکاش
میں چاہوں گا
میرے پیار کرنے سے پہلے
ندیاں لا محدود ہوجائیں
اور پتھروں سے ٹکرانے کا سلسلہ تھم جائے۔
ڈوب جانے کا ڈر
ندیاں اپنے ساتھ بہا لے جائیں
اور ان کی فکر میں ڈوبا ہوا میرا گاوں
یہ محسوس کرے
کہ ندیاں کسی دیوتا کے سر سے نہیں
بلکہ زمیں کی کوکھ سے نکلی ہیں۔
میں چاہوں گا
ندی کے کنارے بیٹھی عورت
جب سنائے کہانیاں ندیوں کی
تب وہ تیاگ دے دیوتاوں کی مدح سرائی
وہ بتائے اپنے پرکھوں کے بارے میں
اور بتائے کہ سب سے پہلے آکر ہم یہیں بسے
ندی ہماری پہلی محبت تھی۔
میں چاہوں گا
میرے پیار کرنے سے پہلے
خزاں کے بعد درخت
بہار کی آمد کا تماشائی نہ رہ جائے
ہرےپن کے لیے موسم کے خلاف
وہ ندی اور سورج کوایک کردے ۔
اور محسوس کر لے
گھونسلوں اور جھونپڑیوں کے تئیں اپنی ذمہ داری۔
میں چاہوں گا
گوریا اور پیڑجب آپس میں باتیں کریں
تو کہیں کہ وہ آنگن جہاں تمہیں دانے ملتے ہیں
تخلیق کی ابتدا میں میرے انہیں بازوؤں پر بسے تھے
آج میں اس کے لیے زمین پر رشک کرتا ہوں۔
میں چاہوں گا
میرے پیار کرنے سے پہلے
پتھر دل کی طرح دھڑکنے لگے
کھول دے خاموشی کی تمام تہیں
جہاں کبھی ندیاں گزریں
کبھی خراماں تو کبھی اکھڑ جانے کے اتنے دباؤ کے ساتھ
جہاں لوگ شکار کی تلاش میں گھنٹوں ٹیک لئے رہے۔
دکھائیں وہ نشان
جہاں رگڑ کر آگ پیدا کی گئی۔
اور کہیں
میری خاموشی کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ
آگ دیوتاؤں کی بخشش ہے۔
مجھے ہی تراش کر ان کو صورت بخشی گئی
جبکہ ان کے بھیتر
میں آج بھی خاموش ہوں۔
میں چاہوں گا
میرے پیار کرنے سے پہلے
گپھائیں کھول دیں گپھا مصوری کی پوری تاریخ
جسے اس کائنات کے پہلے مصور نے
اپنے دل کی تصویری زبان میں لکھا تھا۔
اتنے تناو میں کوئی پہلی بار لکھا تھا۔
اس کی آمد سے پہلے جنگل میں کئی بار آگ لگی
اور ندیوں کا رنگ لال رہنے لگا
تبھی اس نے چھوڑ دیا اپنا گروپ
کبھی وہ بربر وحشی لگتا
کبھی بے حد رحم دل
لیکن بالآخر اسی کشمکش میں
بھالے اور تیر لئے لوگوں کے درمیان
اس نے درج کیا
ایک نہتّھا انسان جو چلتا ہی جا رہا تھا
کہیں کسی اور میرے پیار کرنے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔
بہت عمدہ